Tinker Bell

Add To collaction

وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا

قسط # ٣



شارمین  نے کمرے میں آکر موبائل اٹھایا تو گروپ میں بہت سارے میسجز آئے ہوئے تھے۔ جن میں ونی ایشو کو ساری صورتحال سے اپڈیٹ کر رہی تھی۔

' یار تم دونوں نہ مار کھاؤ مجھ سے' ایشو نے ہنستے ہوئے کہا۔

' ایشو تم ہنس رہی ہو؟ یہاں ہماری جان پر بنی ہے اور تمہیں ہنسی آ رہی ہے۔' شارمین  نے رونے والے ایموجی بھیجے۔

' یار کیا چیز ہو تم دونوں۔ یہ بے تکی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ساری ٹیچرز لنگڑی یا انی موری بنی پھر رہی ہوتیں۔' ایشل نے ہنستے ہوئے دونوں کو سمجھایا۔

' سچ کہ رہی ہو نا؟' ونیسہ نے تصدیق چاہی۔

' ہاں نہ۔ میں نے دعاؤں پر بک پڑھی ہے۔ ایسی بے تکی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔ بے فکر رہو' ایشو نے یقین دلاتے ہو کہا۔

' اللہ کا شکر! میں تو ڈر گئی تھی۔' شارمین نے پرسکون ہوتے ہوئے لکھا۔

' اور تمہارے اڈمیشن کا کیا بنا ایشو ؟'

' ہاں اللہ کا شکر ہو گیا۔ آئی-پی-ایم-آر  میں۔' ایشو نے خوشخبری سنائی۔

 'ما شاء اللہ بہت بہت مبارک میری جان۔' شارمین  نے خوشی سے رپلائے کیا۔

' مبارک ہو جاناں۔ اللہ تمہیں کامیاب کرے۔' ونیسہ نے بھی مبارکباد دی۔

' اچھا ایشو پشوگے میں گئی۔ پھر بات ہوتی ہے۔ اللہ نگہبان، فی امان اللہ۔ با اُمیدِ دیدار۔' ونیسہ نے میسج کیا اور آف لائن ہو گئی۔

' میں بھی جاتی ہوں، یونیفارم وغیرہ لینے جانا ہے۔ انشاءاللہ پھر بات ہو گی۔ اللہ حافظ۔' ایشل بھی آف لائن ہو گئی۔

شارمین نے موبائل رکھا، ابھی وہ فہد  سے بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ  آ گیا۔

' اوئے فہد ادھر آو۔' شارمین نے فہد کو پکڑ کر بلکہ تقریبا کھینچ کر بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

' اب شرافت سے بتاو کیا ہوا ہے۔ کیوں چپ چپ سے ہو گئے ہو۔' شارمین نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔

' بتایا تو ہے کہ۔۔۔۔'

' فہد جھوٹ نہیں!' شارمین بات کاٹتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔

' مما نے منع کیا ہے کہ تمہیں نہ بتاؤں۔' فہد نے جیسے ہتھیار ڈال دے۔

' کیوں؟ ایسی بھی کیا بات ہے۔' اب کہ شارمین کو تھوڑی تشویش ہوئی۔

' خیر جو بھی ہو، اچھا عیشا تمہیں پتا ہے آج سر عمر نے بتایا کہ ان کی شادی ہے، تو وہ نیکسٹ ٹو ویکس نہیں آئیں گے۔' فہد نے بات بدل دی۔

' وہ فزکس کے ٹیچر، اچھا۔۔ پھر ان کی جگہ کون پڑھائے گا؟' شارمین  نے پوچھا۔

' کہہ تو رہے تھے کہ کوئی نیو ٹیچر آئیں گے۔ اب دیکھتے ہیں۔'

فہد نے بڑی مہارت سے ٹاپک چینج کر دیا تھا۔ ابھی وہ دونوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ بائیک کی آواز پر  ایک دوسرے کو مسکراتی نظروں سے دیکھا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ 

' اسلام علیکم پاپا جانی!' دونوں نے ایک ساتھ سلام کیا۔

' وعلیکم اسلام!' عابر اعظم نے پہلے شارمین پھر فہد کو پیار کیا۔

  ' پاپاجانی آپ ہمیشہ ایسے کرتے ہیں۔' ہر بار کی طرح فہد نے منہ پھولا لیا۔ 

' کیونکہ ہم نے تمہیں کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا نہ اس لیے۔' شارمین نے  چڑاتے ہوئے کہا۔

اس سے پہلے کہ فہد کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی ہوتی، نسرین بیگم نے آ کر دونوں کو ڈانٹ دیا۔

' یہ کیا بچپنا ہے؟ ہر وقت لڑتے رہتے ہو دونوں۔' نسرین بیگم نے عابر اعظم کو پانی دیتے ہوئے کہا۔

' اور مغرب پڑھی ہے؟' 

شارمین  اور فہد نے بتیسی دکھاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

' فورا جاؤ۔' نسرین بیگم نے حکم جاری کیا اور دونوں اچھے بچوں کی طرح نماز پڑھنے چلے گئے۔

******************
تانی لاؤنچ میں بیٹھی، اقراء سے لڑکی کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔

'آپی میری بھابھی ٹو بی کا نیم کیا ہے؟ اور آپ کے پاس کوئی پک ہے ان کی؟'

'ہاں پک تو ہے اور جہاں تک بات ہے نیم کی تو وہ خود گیس کرو۔ چلو ہنٹ بھی دیتی ہوں۔ بہت آسان ہے، اور اس وقت تمھارے آس پاس بھی ہے۔' 

اقرا نے کہتے ہوئے تانی کو پک دکھائی اور تانی جو بڑی ایکسائٹڈ تھی، پک دیکھتے ہی اکسائٹمنڈ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔

' کیا بات ہے؟ اچھی نہیں لگی؟' اقراء نے اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا تو تانیہ نے نفی میں سر ہلایا۔

' نہیں اچھی ہیں لیکن پائیز بھائی کے ساتھ سوٹ نہیں کریں گی۔' تانیہ نے اپنی ناپسندیدگی کی وجہ بھی بتائی۔ اقراء تانی کو دیکھ کر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔

' اچھا اور نیم کے بارے میں کیا خیال ہے؟' اقراء نے تجسس سے پوچھا۔

' مجھے سوچنے دیں! کہیں ان کا نیم اقراء تو نہیں؟'  تانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

' ہاہاہاہا۔۔۔۔ بلکل ٹھیک۔' اقراء نے ہنستے تصدیق کی۔

' ویسے ان میں کیا اچھا لگا آپ دونوں کو؟' تانی نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔

' ہم دو تین جگہ گئے تھے اور صرف یہ ہی واحد لڑکی تھی جو ہمارے ساتھ بیٹھی بھی اور بات بھی کر رہی تھی۔ ورنہ باقی سب تو سلام کے بعد بھاگ گئی تھیں۔' اقراء ہنستے ہوئے بولی۔

' ان کے بارے میں سب کچھ بتائیں۔' تانی نے متجسس ہو کر پوچھا۔

'اچھا آؤ کچن میں چلتے ہیں۔ میں کام بھی کروں گی اور ساتھ ساتھ بتاتی بھی جاؤں گی۔'  اقراء اور تانیہ دونوں کچن میں آگئیں۔

'ہمم۔۔۔ تو اب بتائیں۔' تانی نے شلف پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

' نام ہے اقراء مہتاب۔ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اقراء کے علاوہ سب میرڈ ہیں۔ اقراء سب سے چھوٹی ہے اور ال-ایچ-وی  کر رہی ہے۔ اخلاق بھی اچھا ہے۔ تمیز و تہذیب والی ہے۔' اقراء کام کرتے ہوئے بتانے لگی۔

' ہمم۔۔۔ اقراء مہتاب۔' تانیہ کچھ  سوچتے ہوئے بولی۔

 '  آپی اس طرح تو دو اقراء ہو جائیں گی۔'

' ہمم۔۔۔ بٹ ابھی تو صرف لڑکی دیکھی ہے۔ ممی پہلے ڈیڈی اور دائم سے بات کریں گی۔ پھر پائیز سے پوچھیں گے۔ تب کہی جا کر ڈن کریں گے۔' اقراء نے چکن کو مصالحہ لگاتے ہوئے کہا۔

' ٹھیک ہے۔ ویسے کیا بنا رہی ہیں؟' تانی نے خوشبو سونگھتے ہوئے کہا۔ 

' بریانی بنا رہی ہوں، اپنے مجازی خدا کے لیے۔' اقراء شرارت سے کہا ۔ یہ جانے بغیر کہ یہ شرارت اسے مہنگی پڑھنے والی تھی۔

' اوئے ہوئے۔۔۔۔' تانی  اقراء کو چھیڑ رہی تھی کہ دائم آ گیا۔

' کیا ہو رہا ہے؟' دائم  شلف پر پڑی باسکٹ سے سیب اٹھا کر کھانے لگا۔

' کچھ خاص نہیں بس آپی اپنے مجازی خدا کے لیے بریانی بنا رہی ہیں۔' تانی شرارتی مسکراہٹ لیے بولی۔

دائم نے مسکراتی  نظروں سے اقراء کو دیکھا تو اقراء بلش کرتے ہوئے رخ موڑ گئی۔ جس پر تانی اور دائم کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔

' یہ تم دونوں پھر میری بیٹی کو تنگ کر رہے ہو؟' غزالہ بیگم نے تانی اور دائم کو مصنوعی غصہ سے گھورا۔

' نہیں ممی ہماری کیا مجال کہ ہم آپ کی بیٹی کو تنگ کریں، کیوں تانی؟' بظاہر سنجیدگی سے کہتے ہوئے دائم شرارت پر آمادہ تھا۔

' جی ممی! بھائی تو صرف آپی کو پیار سے دیکھ رہے ہیں۔ کیوں آپی سچ کہہ رہی ہوں نا۔' تانی نے شرارتی نظروں سے اقراء کو دیکھتے ہو غزالہ بیگم سے کہا۔

' اچھا پھر ٹھیک ہے۔ دیکھ لو کوئی مسئلہ نہیں۔' غزالہ بیگم کا بھی مستی موڈ آن ہو چکا تھا۔

' ممی پلیز۔' لال ٹماٹر چہرہ لیے، اقراء غزالہ بیگم کے گلے لگ گئی۔ 

' ممی میں بھی آؤں کمپنی دینے؟' دائم اب بھی باز نہ آیا تو بچاری اقراء کو بھاگتے ہی بنی۔

' بس کر دو ہر وقت میری بیٹی کو تنگ کرتے رہتے ہو۔' غزالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا اور چولہے کی طرف چلی گئیں۔

*******************

' پاپا جانی آپ کو پتا ہے آج۔۔۔'

' نہیں پاپا آپ میری بات سنیں، اس کو چھوڑیں۔۔' فہد شارمین کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

' نہیں میری بات سنیں گے۔'

' نہیں میری۔۔' فہد بھی میدان میں اتر آیا۔

' فہد تم انسان بن جاؤ اچھا۔ فضول کے پنگے نہ لو میرے سے۔' شارمین  نے فہد کو تنبیہہ کی۔

' میں نے کیا کیا ہے؟' فہد  کو بھی غصہ آ گیا۔

' بس کرو فہد بڑی بہن ہے۔' عابر اعظم  جو ان کی نوک جھوک سے لطف اندوز ہو رہے تھے، معاملے کو سنجیدہ ہوتے دیکھ کر انهیں ٹوک گئے۔

' پاپا جانی آپ ہمیشہ مجھے ہی ڈانٹتے ہیں، عیشا کو کچھ بھی نہیں کہتے۔' فہد نے ہمیشہ کہی جانے والی بات دوہرائی۔

'ہاہاہاہا۔۔۔ کیوں کہ غلطی تمھاری ہوتی ہے اسی لیے۔ کیوں شارمین۔' عابر اعظم نے شارمین کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا۔

' کوئی شک؟' شارمین  نے فہد کو منہ چڑاتے ہوئے کہا۔

اس سے پہلے کہ فہد جوابی کارروائی میں کچھ کہتا، نسرین بیگم نے شارمین کو آواز دی۔

' شارمین آؤ کھانا لگاؤ۔'

' جی مما آئی۔ پاپا جانی آپ فریش ہو جائیں۔'

' اچھا ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔'

' چلو فہد تم بھی آو میرے ساتھ۔' شارمین  فہد کو ساتھ لے کر کھانا لگانے لگی۔

کھانے کے دوران بھی دونوں بہن بھائی میں نوک جھوک ہوتی رہی، جس کو عابر اعظم تو خوب انجوئے کر رہے تھے لیکن نسرین بیگم ٹوک دیتیں۔ 

تو یہ تھی عابر اعظم  کی چھوٹی سی خوبصورت دنیا۔ جس کی رونق ان کے جگر کے گوشوں کے دم سے تھی۔

*************

   5
1 Comments

Anuradha

10-Sep-2022 03:56 PM

بہت خوب😥😥😥😥😥

Reply